شاباش وزیراعظم صاحب!
(چراغ بہ کف/ خاورچودھری) 
 اُستاد قمرجلالوی نے اپنے ضعف اورپیری کوشعر کی خوب صورتی میں چھپانے کے لیے کہاتھا کہ وہ جوانی کوڈھونڈنے کے لیے جھکے ہوئے ہیں نہ کہ اُن کی کمر میں پیری کی وجہ سے خم ہے مگرگیلانی صاحب کے حوالے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی''پیری'' کی وجہ سے جھکتے جارہے ہیں۔خیرسے اُن کے پاس دوبڑی ''گدیاں'' ہیں۔ایک کوالبتہ کرسی بھی کہاجاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو''تذلیل'' سے بچانے کی ضمن میں جوکچھ انھوں نے ارشاد فرمایاہے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔وزیراعظم صاحب اپنے بھائی بندوں کو مستقبل کا لوبھ دے کراُن سے ایک غیرمقبول اورہتک آمیزکام پرحمایت چاہتے ہیں' افسوس۔پھرجمشیددستی کی انتخابی مہم میں اپنی شرکت کادفاع ایسے کررہے ہیں جیسے رشتہ داریوں برادریوں میں ہوتا ہے' یعنی فیقے کی شادی میں شریک نہ ہونے سے لوگ باتیں کرتے ہیں۔اَب یہ کیاجواز ہے کہ پارٹی نے موصوف کے بھائی کوٹکٹ نہیں دی' اس لیے شریک ہونا ضروری تھا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وزیراعظم ناراض ہیں۔بھلاہوان کاجواپنے رویے اوراظہار سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ اُصول'قوانین اوراخلاقیات اونچی ناک کے سامنے کچھ اہمیت نہیں رکھتے اور جب بھی کبھی ایسا کوئی مسئلہ درپیش ہوتوبلاتامل ساری اخلاقیات اورسارے اُصولوں کوپائوں کی خاک بنادیاجائے۔
 یقینا اَب ڈگری کی شرط نہیں ہے اورہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس شرط کااطلاق کیوںہوا تھا اوریہ بھی خبر ہے کہ اس شرط کو منسوخ کیوں کیاگیا تھا مگراس بات سے کوئی کیوں کر انکار کرسکتا ہے کہ جولوگ اپنے ہزاروں ووٹروں کودھوکا دیتے ہیں'ناجائزطریقے سے اقتدار میںآکرقومی دولت لوٹتے ہیںوہ قابلِ اعتماد اورقابل تقلید نہیں ہواکرتے۔ صرف جمشید دستی پر ہی کیا موقوف وہ تمام لوگ اس فہرست میں شامل ہیں جواس حوالے سے ننگے ہوچکے ہیں۔پھرمیاں نوازشریف کے دہرے رویے پربھی شرمساری کا موقع ہے۔ ایک طرف حاجی پرویز کو امتحان میں اپنی جگہ کسی اورکوبٹھانے کی پاداش میں اسمبلی رکنیت کے بوجھ سے آزاد کرتے ہیں تو دوسری طرف انھی لوگوں کوٹکٹ عنایت کردیتے ہیں جو اس سے بھی گھٹیاکام کے سزاوار ہیں۔ اَب بے چارے عابد شیرعلی اکیلے کیاکریں۔جسٹس (ر) حمیدڈوگر کی بیٹی کوحاصل ہونے والی رعایت کے اتنے چرچے ہوچکے تھے کہ ان کی جماعت کو بہت سے معاملات پر مشکل فیصلے کرناپڑے اور اَب تک کی اطلاعات کے مطابق پارلیمان میں موجود سب سے زیادہ جعلی ڈگریاں بھی اسی جماعت کے اراکین کے پاس ہیں۔
 عابد شیرعلی کاتازہ ترین بیان خود اُن کے اپنے پاؤں کی زنجیربن سکتا ہے' اگرچہ یہ خوش آئند ہے۔موصوف نے کہا ہے کہ وہ چوبیس مئی کو کمیٹی کااجلاس بلا رہے ہیں جس میں الیکشن کمیشن کو یہ کہاجائے گا کہ وہ تمام اراکین پارلیمنٹ ،صوبائی اسمبلی وسینٹ کاریکارڈ بنا کر ہائر ایجوکیشن بھجوائے تاکہ ان کی ڈگریوں کی تصدیق ہو سکے۔ ڈگریوں کی تصدیق کے بعد تمام حالات سے عوام کوآگاہ کیاجائے گا اور جو یونی ورسٹی ملوث پائی گئی اُس کے خلاف کارروائی ہوگی اورجعلی ڈگریوں کے حامل ارکان کے کیسز الیکشن کمیشن کومزیدکارروائی کے لیے بھجوائے جائیں گے۔ اپنی اسی گفتگو میں وہ وزیراعظم کی ایوان میں تقریراورجمشید دستی کی انتخابی مہم میں شرکت پراظہارخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں'' ہم رول ماڈل ہیں' ہمیں جعل سازوں کے لیے حمایت مانگنے اور اُن کو رعایت دینے کی بجائے اُن کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔'' لگے ہاتھوں عابدشیرعلی یہ خوب صورت اور صائب مشورہ اپنی جماعت کے قائد میاں نواز شریف کو بھی دے ڈالتے توکم ازکم جن حلقوں سے دو نمبریے منتخب ہونے جارہے ہیں وہ تونہ ہوتے۔ اتنا توہوکہ ان کی جماعت ہی اُن کے اچھے اور قابل قدر جذبے کی لاج رکھتے ہوئے اپنی ٹکٹیں منسوخ کرنے اوراُن امیدواروں سے لاتعلقی کا اعلان کردے۔ ایسے آثار نہیں ہیں' اس لیے یہ خیال ذہن میں جگہ پانے میں کام یاب ہوا کہ اُن کی یہ نئی مہم جوئی کہیں خود اُن کے پاؤں کی زنجیرنہ ہوجائے اور''اُوپر'' سے آنے والے احکامات خود انھیں کسی مشکل میں نہ ڈال دیں۔ بہ ہرحال عابدشیرعلی کے خیالات لائق تحسین ہیں۔
 جہاں تک وزیراعظم صاحب پارلیمان کی بے توقیری کی بات کرتے ہیں تویہ سب کیا دھرا خود پارلیمان میں بیٹھنے والوں کا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ جعلی سند یافتہ اراکین پارلیمنٹ کو مستعفی ہوجاناچاہیے توانھیں اپنے دوسرے مؤقف پر بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اسمبلی ڈگری کی شرط کی موجودگی میں قائم ہوئی تھی اور اس شرط کے خاتمے کا اعلان بعد میں ہوا۔اَب اسی اسمبلی میں اُن لوگوں کو دوبارہ داخل ہونے کا کیوں موقع دیاجارہا ہے 'جن کی جعل سازی ثابت ہے؟ اگرگیلانی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ کوئی مستقبل میں وزیر اعظم بننے کی خواہش کو پروان چڑھاتے ہوئے اُن کے مؤقف کی تائید کرے تویہ زیادتی ہوگی اور اگرکوئی حلقہ اُن کی اس خواہش کی تکمیل میں اُن کاساتھ دیتا ہے تویہ اُس سے بڑی زیادتی ہو گی۔ پارلیمان جب خود اُصولوں اور اخلاقیات کی پاس داری نہیں کرے گا توذرائع ابلاغ یا پھر کوئی اور کیسے اُس کاتحفظ کریں گے یااُس کے ایسے مؤقف کومقبولیت آشناہونے دیں گے؟ جب وزیراعظم خود یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جعل ساز پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے حق دار نہیں ہیں توپھراس حوالے سے دفاعی حالت اختیارکرنے کی بجائے دلیرانہ فیصلہ کریں اور اپنی جماعت کے غلط فیصلے کے خلاف مؤثرآواز بھی خود ہی اٹھائیں۔عدالت نے تواس حوالے سے خوب صورت اوراہم نکتہ بیان کردیا ہے کہ جس شخص کی بنیاد ہی دھوکے پرقائم ہو وہ کیوں کر کسی کی نمائندگی کااہل ہوسکتا ہے؟ اب میڈیا سے وابستہ لوگ کیا کریں؟ موصوف کے پہلے بیان اورعمل پرخاموشی اختیار کریں یادوسرے پر؟ کیوں کہ دونوں کامدعاقریب قریب ایک ہی ہے' صرف لہجوں اورلفظوں کا فرق ہے۔پہلے دوٹوک انداز سے اپنے دل کی کیفیت بیان کی تھی اور اَب ملفوف اندازسے۔
 خطرناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے حکم راں جماعت کے بیش ترلوگ اپنے اس مؤقف پرڈٹے ہوئے ہیں اورجمشید دستی کو''اہل '' سمجھتے ہیں۔ فیصل رضا عابدی نے تو اُلٹا صحافیوں کوہی شرمندہ کرنے کی کوشش کردی ہے کہ تمام صحافی بھی تو ماسٹرز کی ڈگری نہیں رکھتے ۔یہ اچھا نکتہ ہے' اگرصحافیوں کے لیے ایسی کوئی شرط موجود ہے یاکبھی لاگوہوئی ہے توانھیں اس کی پاس داری کرنی چاہیے۔عابدی صاحب اتنا توکم ازکم ضرور جانتے ہوں گے کہ کوئی بھی بڑا ادارہ ماسٹرزسے کم ڈگری رکھنے والے نوجوان کواپنی ٹیم میں شامل نہیں کررہا۔یہ اس بات کی شروعات ہے کہ آئندہ صحافت میں بھی ڈگری یافتہ لوگ موجود ہوں گے۔ ہم توکہتے ہیں کہ پرویزمشرف کاسیاست پراورکوئی احسان ہے یانہیں یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے سیاست دانوں کو بھی ڈگریوں کی طرف راغب کیا اوراَب وہ کم ازکم اپنے آنے والی نسل کوتعلیم دلوا رہے ہیں۔ ماضی میں توجوجتنانکما اورکام چورہوتا تھا اُسے سیاست کے لیے اتنا ہی موزوں سمجھا جاتاتھا۔یہ اسی بی اے کی شرط کا صدقہ ہے کہ کچھ اچھے اورپڑھے لکھے لوگ بھی اسمبلیوں تک پہنچے اور انھوں نے مختلف معاملات پرماضی کے سیاست دانوں سے زیادہ اچھی رائے ظاہر کی۔ ہم تویہ بھی کہتے ہیں کہ اس شرط کوختم کرنے کی بجائے زیادہ مؤثر کرنے کے لیے کم ازکم ماسٹرز کی شرط رکھنی چاہیے اوراگریہی شرط صحافیوں کے لیے بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے یقینا دُہرافائدہ ہوگا۔سیاست دان اورصحافی جہاںاعلیٰ تعلیم کی شرح میں اضافے کاسبب بنیںگے وہاںمعاملات کوزیادہ وضاحت اورخوش نظری سے دیکھ سکیں گے۔



Leave a Reply.